Pages

Wednesday 10 August 2011

’جدید ٹیکنالوجی فسادات کی ذمہ دار

سوشل میڈیا اور موبائل ٹیلی کمیونیکیشن نے لندن میں سینچر سے شروع ہونے والے فسادات میں جلتی پر تیل کا کام کیا؟

برطانیہ کے سیاست دان، ذرائع ابلاغ کے تبصرہ نگاروں اور پولیس کے ارکان کا کہنا ہے کہ ٹوئٹر اور بلیک بیری کے ذریعے کی جانی والی پیغام رسانی کا بھی ان فسادات میں اہم کردار ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ لندن کے فسادات میں شامل کچھ افراد نے اپنے موبائل فونز کے ذریعے ان لمحات کو براہِ راست بیان کیا۔

اُن میں بعض ایسے احمق بھی تھے جو بہت فخر سے اپنے ساتھ لوٹے ہوئے سامان کی تصاویر بھی اپ لوڈ کر رہے تھے۔

سینچر کو ٹوٹنہم میں ہونے والے فسادات کے بعد بلیک بیری استعمال کرنے والے افراد کو پیغام رسانی کے ذریعے مستقبل میں رونما ہونے والے فسادات کی جگہوں کی تجویز پیش کی گئی۔

بعض افراد نے پیغام رسانی کے ذریعے یہ بھی تجویز دی کہ اگلا ہدف کون سی جگہ ہونی چاہیے۔

اس صورتحال نے میٹرو پولیٹن پولیس کے ڈپٹی اسسٹنٹ کمشنر سٹیو کوانگا کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ وہ ٹوئٹر استعمال کرنے والے ایسے افراد کو جو دوسروں کو تشدد ہر اکساتے ہیں گرفتار کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

ٹوٹنہم کے علاقے سے تعلق رکھنے والے رکنِ پارلیمان ڈیوڈ لیمے نے دعوی کیا تھا کہ ٹوئٹر کے ذریعے فسادات کو منظم کیا گیا تھا لیکن ٹوئٹر کی سائٹ پر عوام کی جانب سے آنے والے پیغامات میں ایسا کوئی پیغام نہیں مل سکا۔

ٹوئٹر استعمال کرنے والے ایک اہلکار گرنز، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے ’ویسٹ فیلڈ فساد‘ کے بارے میں ٹوئٹر پر لکھا سے مراد جنوبی لندن کا شاپنگ سینٹر ہے۔

جب کوئی شخص بلیک بیری یا ٹوئٹر پر کچھ لکھتا ہے تو بہت سے نوجوان اس رحجان کا پیچھا کرتے ہیں۔

موبائل یوتھ کے ریسرچ مینجر فریڈی بینجمن

اگرچ

No comments:

Post a Comment