بھارت کی سپریم کورٹ نے دسمبر سنہ دو ہزار میں دلی کے تاریخی لال قلعہ کے اندر واقع ایک فوجی یونٹ پر حملہ کرنے کے جرم میں محمد عارف عرف اشفاق کی سزائے موت کی توثیق کر دی ہے۔
اس حملے میں ایک بھارتی شہری اور دو فوجی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
محمد عارف کو ایک ذیلی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی اور دلی ہائی کورٹ نے اس سزا کو برقرار رکھا۔عارف نے موت کی سزا کے خلاف بھارت کی سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی جو عدالت عظمی کے دو رکنی بنچ نے مسترد کر دی۔
کلِکپاکستانی کو سزائے موت، دیگر کو قید
محمد عارف کا تعلق شدت پسند تنظیم لشکر طیبہ سے بتایا جاتا ہے اور وہ پاکستان کے شہری ہیں۔انہیں حکومت ہندکے خلاف جنگ کرنے اورمجرمانہ سازش کا قصوروار پایا گیا ہے ۔
بائیس دسمبر سنہ 2000 کی رات بعض شدت پسند لال قلعہ کے اندر داخل ہوگئے تھے اور وہاں انہوں نے اندھا دھند فائرنگ کی تھی جس سے دو فوجی اہلکار اورایک عام شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ فوج اہلکاروں کی جانب سے جوابی کاروائی میں دو حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا تھا۔
اس واقعہ کے چند ہی روز بعد دلی کے جامعہ نگر علاقے میں ایک پولیس چھاپے کے بعد عارف اور اس کی بھارتی بیوی کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس واقعہ میں دلی پولیس نے اکیس افراد کے خلاف فرد جرم داخل کی تھی جن میں سے بیشتر کئی برس جیل میں گزارنے کے بعد بے قصور ثابت ہوئے۔
ذیلی عدالت نے عارف اور چھ دیگر افراد کو ملک کے خلاف جنگ چھیڑنے اور قتل کرنے کا مجرم قرار دیا تھا۔
عارف کو عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی اور اس کی بیوی رحمانہ یوسف فاروقی کو سات سال کی قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ دیگر ملزمان کو بھی قید کی سزا سنائی گئی ہے۔محمد عارف گزشتہ گیارہ برس سے بھارتی جیل میں ہیں۔
No comments:
Post a Comment